دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو

ہمیشہ یونہی کرے گی اس کے عروج کا اعتراف خوشبو

میں جب بھی یادوں میں ان کے چہرے کے خال و خد کو پکارتا ہوں

تو معبدِ قلب و جاں میں کرتی ہے دیر تک اعتکاف خوشبو

یہ کس کی فرقت نے ڈال دی ہے سیاہ پوشی کی تجھ کو عادت

حرم میں کعبہ سے پوچھتی تھی پکڑ کے اس کا غلاف خوشبو

عبیر و عنبر گلاب و سوسن پناہ کا ہاتھ کھینچ لیں گے

کرے گی جس دن دیارِ سرور کی خلد سے انحراف خوشبو

ملوں گی تجھ کو دیارِ رشکِ ارم کے ہر ایک بام و در پر

ہر ایک حاجی کو دے رہی تھی پتا درونِ مطاف خوشبو

فضائے طیبہ سے کر رہے ہیں کشید مجھ کو یہ پھول سارے

چمن چمن سب کیاریوں میں یہ کر گئی انکشاف خوشبو

اگرچہ خوشبو ہے ایک احساسِ خوشگوار و لطیف لیکن

حرم کے صحنوں میں رقص کرتی دکھائی دیتی ہے صاف خوشبو

وہ اس کو آباد کر رہا ہے حروفِ مدحت کے مستقر میں

نہیں ہے ممکن کرے گی اشفاقؔ سے کبھی اختلاف خوشبو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]