ذرا سی دیر ٹھہر کر سوال کرتے ہیں

سفر سے آئے ہوؤں کا خیال کرتے ہیں

میں جانتا ہوں مجھے مجھ سے مانگنے والے

پرائی چیز کا جو لوگ حال کرتے ہیں

وہ دستیاب ہمیں اس لئے نہیں ہوتا

ہم استفادہ نہیں دیکھ بھال کرتے ہیں

زمانہ ہو گیا حالانکہ دشت چھوڑے ہوئے

ہمارے تذکرے اب بھی غزال کرتے ہیں

وہ عشق جس کے گنے جا چکے ہیں دن اظہرؔ

ہم اس چراغ کی سانسیں بحال کرتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]