رنج یہ ہے کہ ترے کھیل تماشے کے لیے

ہم کہ ناقابلِ تسخیر تھے ، تسخیر ہوئے

ہم خداوندِ سخن، نازِ سخن آرائی

جب ترے ہاتھ لگے خآک پہ تحریر ہوئے

ناز تھا خواب کی صنعت پہ ہمیں سو نہ رہا

صرف شرمندہ ہوئے خواب جو تعبیر ہوئے

کس قدر زعم تھا جب کھول رہے تھے بانہیں

پھر ہوا یوں کہ حوادث ہی بغل گیر ہوئے

گرد میں ڈوب گئے ہیں سرِ دیوار کہ ہم

اب ترے عہدِ فراموش کی تصویر ہوئے

تو نے ٹھکرا کے ہمیں عام کہانی لکھا

اپنی دانست میں ہم لوگ اساطیر ہوئے

تو نے خوف کے عالم میں ٹھکانہ چاہا

ہم ترے واسطے پھر راکھ سے تعمیر ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]