زمیں پہ گرتے فلک کو سنبھالتا ہوا میں

اندھیرے پھانکتا ، سورج ابھارتا ہوا میں

چمک رہا ہوں ابھی کوزہ گر کی آنکھوں میں

کسی وجود کا نقشہ ابھارتا ہوا میں

نظر میں آئینہ در آئینہ ہے خواب کوئی

بکھرتا جاتا ہوں تجھ کو پکارتا ہوا میں

نکل کے شہرسے پایاہے حوصلہ میں نے

سو آگیا سر صحرا،کراہتا ہوا میں

میں اپنی موت کی جانب رواں دواں ہوں اب

خود اپنے سینے سے مدفن نکالتا ہوا میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]