جہاں پہ سر تھا کبھی اب ہے سنگِ در کا نشاں

اب اس سے بڑھ کے ترے سجدہ ریز کیا کرتے

عذاب یہ ہے کہ رستے میں خود ہی پڑتے تھے

اب اپنے آپ سے آخر گریز کیا کرتے

سلگ رہے ہیں سرِ راہِ شوق ، نقشِ قدم

ہم اپنی چال بھلا اور تیز کیا کرتے

کِھلے نہیں تھے کہ نظروں میں آ گئے غم کے

تمہاری زلف کو ہم عطر بیز کیا کرتے

یہ بدنصیب دلِ سرد ہی نہیں پگھلا

تمہارے عشوہِ جذبات خیز کیا کرتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]