سخن کے ظلمت کدوں کو خورشید کر رہا ہُوں

مَیں نعت سے روشنی کی تمہید کر رہا ہُوں

نہیں ہے محبوب اور محب میں مغایرت کچھ

بہ حرفِ مدحت خُدا کی تمجید کر رہا ہوں

بچھے ہوئے ہیں قلم کے آگے سخن کے امکاں

بجز ثنا کے ، مَیں سب کی تردید کر رہا ہُوں

جو تیرے اسمِ کرم کی لذت سے بے خبر ہیں

مَیں ایسی سانسوں کی تن سے تفرید کر رہا ہوں

مَیں جانتا ہُوں، نہیں ہیں پھر بھی یہ تیرے لائق

اگرچہ حرف و بیاں کی تجدید کر رہا ہُوں

وجود پُورے میں کھِل رہے ہیں ثنا کے موسم

سکوتِ شب میں کچھ ایسی تغرید کر رہا ہُوں

بغیر مدحت کے مجھ سے منسوب کچھ نہیں ہے

ثنا کے حرفِ عطا کی تجرید کر رہا ہُوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]