سرِّ توحید
میں وادیٔ کوہ میں کھڑا تھا
جہاں عروسِ سحر نے آکر
نقاب رخ سے الٹ دیا تھا
وہ سرمدی راز کھولنے پر تلی ہوئی تھی!
فضا میں توحید کے ترانے ہی گونجتے تھے
اَحد اَحد کی صدا سماعت میں بس رہی تھی
ہوائوں میں ہُویَّت کے نغمے بکھر رہے تھے
پہاڑی ندّی کے شور میں بھی
اَحد اَحد کی پکار محسوس ہو رہی تھی
ہوا نے اشجار کو جگایا!
تو پتّا پتّا اُسی ترانے سے جھوم اٹھا تھا
ہمیشگی رَبِّ ذُوالمنن کی!
مرے لہو میں سما رہی تھی
وہ سرِّ توحید میری نس نس میں بس چکا تھا
مِرا سر پا
نیاز مندی سے جھک رہا تھا!
میں اس کی عظمت کے سارے نغمے
زباں پہ لایا
تو میرے نطق و زباں پہ اِک ذائقہ نیا تھا
سرور کی منزلوں میں، میں نے
شعور کا درس پا لیا تھا
میں عظمتِ ذوالمنن کی
اِک شاہراہ پاکر
بڑھا جو آگے
تو میرے دل نے
ہزار سجدے وہیں گزارے
وہیں پہ وحدانیت کا کوثر
بطورِ انعام میں نے پایا
میں وادیٔ کوہ میں کھڑا تھا
جہاں عروسِ سحر نے آکر
نقاب رخ سے الٹ دیا تھا