سعادت پائی جب ’’عشقِ نبی ‘ کے ناز اُٹھانے کی

شفیق احمدؒ نے کی کوشش بہت خود کو چھپانے کی

کہاں ممکن ہے پر، ستاریٔ پیہم خزانے کی

بہت حسرت تھی ان کو گھر مدینے میں بسانے کی

سو آقا نے اجازت بخش دی طیبہ میں آنے کی

مدینے کی فضا میں رہ کے پیہم مسکرانے کی

حسیں ماحول کی نورانیت سے حظ اُٹھانے کی

شفیق احمدؒ پہ پھر پڑنے لگیں نظریں زمانے کی

جو خواہش تھی یمِ عشقِ نبی میں ڈوب جانے کی

ملی فرـصت بھی سنگِ دل کو آئینہ بنانے کی

پھر آئی ساعت اک ان پر حسیں وعدہ نبھانے کی

الستُ کی صدا پر نعرۂ ’’یاہو‘‘ لگانے کی

تو پرواز عرش تک پھر آپؒ کی فکرِ رسا نے کی

ہوئی تقریب یوں الفت کے کچھ نغمات گانے کی

بڑی مہلت ملی آقا کو حالِ دل سنانے کی

اجازت پائی آقا سے، وہیں بسنے بسانے کی

بقیعِ پاک میں آرام گہہ اپنی بنانے کی

کہی اکبرؔنے احسنؔ بات یہ کتنی، ٹھکانے کی

’’نگاہیں کاملوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے کی

کہیں چھپتا ہے اکبرؔپھول پتوں میں نہاں ہوکر‘‘

منقبت (تضمین بر شعرِ اکبرؔ الٰہ آبادی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]