سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

مری منزل ہی آقا کا نگر ہو

وہ جن رستوں سے ہوں سرکار گزرے

انہی رستوں سے میرا بھی گزر ہو

ہوں میرے سامنے روضے کے جلوے

ہر اک لمحہ زیارت میں بسر ہو

دیوانہ وار میں گلیوں میں گھوموں

نہ دنیا کی نہ اپنی کچھ خبر ہو

میں چوموں خاک اُن راہوں کی ہر دم

یہی بس کام اک شام و سحر ہو

تمنا ہے یہیں دم میرا نکلے

مری آہوں میں اتنا تو اثر ہو

ہیں ذرّے بھی درخشاں جس زمیں کے

اسی دھرتی پہ میرا مستقر ہو

مقدر رنگ لائے ناز کا گر

جبیں میری ، نبی کا سنگِ در ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]