سہم جاتا ہے تصور سے، مگر چاہتا ہے

دل ترے شہرِ مدینہ کا سفر چاہتا ہے

ایک موہوم سی خواہش پہ ہے موقوف، مگر

ایک زائر تری دہلیز پہ سَر چاہتا ہے

ساعتِ دید سے مربوط ہیں سانسیں آقا

لمحۂ عمرِ رواں پھر سے نظر چاہتا ہے

خامۂ عجز سے ہوتی نہیں مدحت تیری

شوق بیتاب ہے، جبریل کا پَر چاہتا ہے

اُسی صحرائے مدینہ سے ہے نسلوں کا نصیب

طائرِ جاں اُسی ماحول میں گھر چاہتا ہے

وجہِ تسکین تو ثابت ہے، مگر جاتے ہوئے

جانے والا ترے آنے کی خبر چاہتا ہے

درِ ُبوصیری و حسّان پہ دستک مقصودؔ

اُس کی مدحت کا تو ہر حرف ُگہر چاہتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]