اردوئے معلیٰ

سہم جاتا ہے تصور سے، مگر چاہتا ہے

دل ترے شہرِ مدینہ کا سفر چاہتا ہے

 

ایک موہوم سی خواہش پہ ہے موقوف، مگر

ایک زائر تری دہلیز پہ سَر چاہتا ہے

 

ساعتِ دید سے مربوط ہیں سانسیں آقا

لمحۂ عمرِ رواں پھر سے نظر چاہتا ہے

 

خامۂ عجز سے ہوتی نہیں مدحت تیری

شوق بیتاب ہے، جبریل کا پَر چاہتا ہے

 

اُسی صحرائے مدینہ سے ہے نسلوں کا نصیب

طائرِ جاں اُسی ماحول میں گھر چاہتا ہے

 

وجہِ تسکین تو ثابت ہے، مگر جاتے ہوئے

جانے والا ترے آنے کی خبر چاہتا ہے

 

درِ ُبوصیری و حسّان پہ دستک مقصودؔ

اُس کی مدحت کا تو ہر حرف ُگہر چاہتا ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ