شعر کہنا اختیاری فعل ہو تو ترک ہو

دل کو لاحق ہے ازل سے عارضہ تخلیق کا

ضرب کھانے سے جمع ہوتی ہے وحشت اور بھی

ہے سخن ممنون ہر تقسیم کا ، تفریق کا

کرب سہنے کی عجب توفیق حاصل ہے مجھے

اور دل طالب ابھی ہے اور بھی توفیق کا

بھید کھلنے پر سوا ہوتی ہے دل کو سنسنی

دفعتاً کھلتا ہے در جیسے نئی تحقیق کا

میں کسی اگلے زمانے سے ہوں محوِ گفتگو

منتظر اک معجزہ ہے وقت کی تصدیق کا

شاعری کا عشق اپنے آپ میں معراج ہے

میں نہیں محتاج تیرے فہم کی توثیق کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]