شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں ​

سرکاؐر کا کرم ہے کہ مضطر نہیں ہوں میں​

​ 

شہرِ جمال میں بھی نہ اڑ پاؤں تیرے ساتھ​

موجِ ہوا ! اب ایسا بھی بے پر نہیں ہوں میں ​

​​ 

طیبہ کے دشت و راغ بھی جنت بدوش ہیں ​

منّت پذیرِ گنبدِ بے در نہیں ہوں میں ​

​​ 

صد شکر میں گدائے شہِ مشرقین ہوں ​

دارا و کیقیا و سکندر نہیں ہوں میں ​

​ 

مجھ کو درِ حضوؐر سے دوری کا رنج ہے​

آلامِ روزگار کا خوگر نہیں ہوں میں ​

​​ 

مجھ سے گریز پا ہیں زمانے کی ٹھوکریں ​

آقاؐ ! کسی کی راہ کا پتھر نہیں ہوں میں​

​ 

مال و متاعِ عشقِ محمد ہے میرے پاس ​

یہ کس نے کہہ دیا کہ تونگر نہیں ہوں میں​

​​ 

روشن ہے نورِ عشقِ محمد سے میرا دل​

پامالِ جلوہء مہ و اختر نہیں ہوں میں ​

​​ 

آقا کے در پہ ہے سرِ تسلیمِ خم ایاز ​

اللہ جانتا ہے کہ خود سر نہیں ہوں میں​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]