شہرِ طیبہ میں میسر روح و دل کو تھا سکوں

اُس فضا سے دور آ کر چھن گیا سارا سکوں

ہے اگر شکوہ کہ دنیا میں نہیں ملتا سکوں

اُسوۂ سرکار ﷺ اپنا، پائے گا ہر جا سکوں!

دل میں رکھ یادِ نبی ﷺ، ہونٹوں پہ رکھ پیہم درود

دیکھ ہوتا ہے مُیسر پھر تجھے کیسا سکوں!

ربِ کعبہ! قربِ طیبہ کی دعائیں ہوں قبول!

ہر جگہ بے چینیاں ہیں، دل نہیں پاتا سکوں

نغز گوئی ہو چکی، اے شاعرِ رنگیں بیاں

اب فقط ذکرِ نبی ﷺ سے قلب کو پہنچا سکوں

اضطرابِ روح کا ہے اک مُداوا ’’پیروی‘‘

چھوڑ کر اُسوہ نبی ﷺ کا کیسی راحت، کیا سکوں؟

اس لیے بے چینیاں بھی ہیں مجھے دل سے قبول

کہہ سکوں محشر میں یارب!ہجر میں کب تھا سکوں؟

عدلِ فاروقی و ایثارِ حسینی کے بغیر

سُن رکھو! دنیا میں حاصل ہو نہیں سکتا سکوں

جب سے دی ترجیح، دیں پر تو نے دنیا کو عزیزؔ

ہر نگر میں ہر فضا میں ہو گیا عنقا سکوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]