طائِف میں ایک نُور کا پیکر لہُو لہُو

یا کربلا میں دیکھا ہے خنجر لہُو لہُو

کربل کتھا کا ہم کو ذرا حوصلہ نہِیں

ہوتا ہے دِل ہی داستاں سُن کر لہُو لہُو

سر شاہ کا جُدا تو کیا ہے لعِین نے

محوِ کلام نیزے پہ ہے سر لہُو لہُو

دیکھا ہے جب سے چشمِ تصوُّر سے کربلا

جنگل لہُو ہے، دشت لہُو، گھر لہُو لہُو

رکھتا ہُوں ضبط آنکھ پہ ذکرِ حسین پر

کرتا مگر ہُوں دِل کو میں اکثر لہُو لہُو

دربار میں جو بِیبیاں بے چادروں کے تِھیں

بے چارگی میں ہو گا وہ منظر لہُو لہُو

نہرِ فراتؔ آج بھی حسرتؔ اُداس ہے

حُرملؔ نے تِیر داغا، ہے اصغرؔ لہو لہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

شاہِ جوانانِ خلُد

شاہِ جوانانِ خلُد، بادشہِ مشرقَین لختِ دلِ مُصطفٰے یعنی ھمارے حُسَین اُن کا مکمل وجُود نُورِ نبی کی نمُود اُن کا سراپا تمام عشقِ حقیقی کی عَین ماں ھیں جنابِ بتُول، بنتِ رسولِ کریم باپ ھیں شیرِ خُدا، فاتحِ بدر و حُنَین اُن کا امَر مُعجزہ سوز و غمِ کربلا آج بھی ھے گریہ ناک […]

تُم ہو معراجِ وفا ، اے کشتگانِ کربلا

ورنہ آساں تو نہیں تھا امتحانِ کربلا ہر کہانی جس نے لکھی ہے ازل سے آج تک وہ بھی رویا ہو گا سُن کر داستانِ کربلا دودھ کی نہریں بھی قُرباں ، حوضِ کوثر بھی نثار اِک تمہاری پیاس پر ، اے تشنگانِ کربلا کتنا خوش قسمت ہے میرا دل بھی ، میری آںکھ بھی […]