طعنۂ سود و زیاں مجھ کو نہ دینا، دیکھو

میرے گھر آؤ کبھی، میرا اثاثہ دیکھو

در کشادہ ہے تمہارا مجھے تسلیم مگر

مجھ میں جھانکو، کبھی قد میری انا کا دیکھو

بس سمجھ لینا اُسے میری سوانح عمری

سادہ کاغذ پہ کبھی نام جو اپنا دیکھو

اِس خموشی کو مری ہار سمجھنے والو!

بات سمجھو، مرے دشمن کا نشانہ دیکھو

آج لگتا ہے کہ پھر اُس سے ملے ہو جا کر

گفتگو تو سنو اپنی، ذرا لہجہ دیکھو

کس کی یادوں سے ہے میرے سخن کو نسبت

ڈائری کھولو پرانی، یہ حوالہ دیکھو

مانگنا خیر تم اُس حاصلِ ہجرت کی ظہیرؔ

اجنبی شہر میں جب کوئی شناسا دیکھو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]