خدا کی نعمتوں سے نعمتیں کچھ اور کر پیدا

خدا نے آنکھ دی تو کر محبت کی نظر پیدا

یہ ہوتے ہیں بہ فیضِ سوزشِ قلب و جگر پیدا

کہ آنکھیں خود نہیں کر سکتیں اشکوں کے گہر پیدا

تری خانہ خرابی سے ہے میرے دل میں ڈر پیدا

کسی صورت سے کر لے تو دلِ یزداں میں گھر پیدا

ازل کے دن اٹھا ہم نے لیا بارِ امانت کو

تو آپ اپنے ہی ہاتھوں کر لیا ہے دردِ سر پیدا

جہاں تعمیر کا ساماں وہیں تخریب کا پہلو

نشیمن کو جلانے کے لئے برق و شرر پیدا

جلا دے جامۂ ہستی گل و گلزار کے طالب

کہ بے سوزِ جگر ہوتا نہیں خونِ جگر پیدا

جو خود معیار بن جائے خرابی اور خوبی کا

زِ قرآنِ مبیں کر لے تو وہ ذوقِ نظرؔ پیدا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]