عشق میں خود سے محبت نہیں کی جا سکتی

پر کسی کو یہ نصیحت نہیں کی جا سکتی

کنجیاں خانۂ ہمسایہ کی رکھتے کیوں ہو

اپنے جب گھر کی حفاظت نہیں کی جا سکتی

کیسے وہ بستیاں آباد کریں گے ، جن سے

در و دیوار کی عزت نہیں کی جا سکتی

کچھ تو مشکل ہے بہت کارِ محبت اور کچھ

یار لوگوں سے مشقت نہیں کی جا سکتی

طائرِ یاد کو کم تھا شجرِ دل ورنہ

بے سبب ترکِ سکونت نہیں کی جا سکتی

اک سفر میں کوئی دوبار نہیں لُٹ سکتا

اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی

کوئی ہو بھی تو ذرا چاہنے والا تیرا

راہ چلتوں سے رقابت نہیں کی جا سکتی

آسماں پر بھی جہاں لوگ جھگڑتے ہوں جمال

اس زمیں کے لیے ہجرت نہیں کی جا سکتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]