علی الدوام وجود و قیام ہے اس کا

نہ ابتدا ، نہ کوئی اختتام ہے اس کا

اک ایک ذرہ ہے مصروف کار پردازی

کچھ اس طرح سے منظم نظام ہے اس کا

اسی سے گلشن عالم میں ہے بہار و خزاں

اسی کا نورِ سحر ، رنگ شام ہے اس کا

اگر نظر ہے؟ تو اک اک کرن میں اسکی خبر

خرام باد صبا میں پیام ہے اس کا

ہماری فہم و خرد سے بعید اس کے امور

محال امر کو حل کرنا کام ہے اس کا

وہ بے زبان کو بخشے سخن وری کے گہر

اسی کا ملک نوا ہے ، کلام ہے اس کا

ہزار شکر جو محبوب رب اکبر ہے

لبوں پہ نورؔ کے ہر وقت نام ہے اس کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]