غبارِ خوابِ یقیں روز و شب پہ طاری ہے

گماں کی شکل بھی اب خال و خد سے عاری ہے

حیات ہم پہ گزرتی رہی قیامت سی

حیات ہم نے گزاری تو کیا گزاری ہے

زمینِ خواب پہ اگتے ہیں سانحے اب تک

تمہارے عہدِ محبت کا فیض جاری ہے

قضا کی دودھیا ، مخروط انگلیوں نے ابھی

وفا کی زلف بڑے پیار سے سنواری ہے

بصد نیاز خموشی سے کاٹ دی ہم نے

وہ ایک رات کہ جو زندگی پہ بھاری ہے

تمہارے واسطے بازی رہی مگر ہم نے

تمہارے کھیل تماشے میں جان ہاری ہے

گُھٹا ہوا تھا بدن میں تخیلات کا دم

سو اب جنون نے یہ کینچلی اتاری ہے

ہمیں نہیں کوئی عجلت کہ مقتلِ غم میں

ہمارے بعد بھی ناصر ہماری باری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]