فراموش شدہ خدائے سخن

اَئے کسی عہدِ گزشتہ کے فراموش خدا

عصرِ حاضر میں یہ توہین مبارک ہو تجھے

سج گئے پھر سے نئے زخم ترے سینے پر

جذبہ مرگ کی تسکین مبارک ہو تجھے

کون تسلیم کرے گا کہ کسی کی خاطر

تُو نے وہ کچھ بھی نہ پایا کہ میسر تھا تجھے

تُو تہی دست سرِ دشت عدم لوٹ آیا

جبکہ اک شہرِ طلسمات مقدر تھا تجھے

تُو کہ ناکامِ ازل ہے سو نئی بات نہ تھی

تیری کم بخت دعاؤں کا دھواں ہو جانا

تیری خود ساختہ عظمت کی یہی دقت ہے

ہر پجاری کی عبادت پہ گراں ہو جانا

صورتِ حال ترے شوق کی کس سے کہیے

مختصر یہ ہے کہ حالات کی صورت ہی نہیں

اَئے خداوندِ سخن ، حرف ترے خاک ہوئے

عہدِ موجود کو اب اِن کی ضرورت ہی نہیں

تیری متروک شریعت میں بڑا نقص رہا

ہر حقیقت میں اساطیر کی آمیزش تھی

تُو نے ہر بار بدن حرفِ غزل سمجھا ہے

تیرے ہر لمس میں تحریر کی آمیزش تھی

تُو کہ احساس رہا ، زعمِ خدائی میں مگن

پر ترے عبد ، ترا جسم بناتے ہارے

تیری دہلیز کی حسرت میں جبینیں بکھریں

صندلی ہاتھ ترے لمس کو پاتے ہارے

اَئے خداوندِ سخن ہائے جہانِ دیگر

صرف افکار ، مداوائے غمِ ہجر نہیں

کُرہِ ارض کی آغوش ہے نا آسودہ

جسم مطلوب ہے کم بخت ، تری فکر نہیں

سو ترے بارِ خدائی کو اُٹھانے والے

تیرے عُشاق ترے در پہ سبکدوش ہوئے

سرمگیں نین تری دید سے مایوس ہوئے

احمریں ہونٹ ترے وِرد سے خاموش ہوئے

جاگتا جیتا ہوا واقعہ ، دنیا کی طلب

اور تُو ہے کہ حکایات لئے بیٹھا ہے

اب یہ عالم کہ سرِ عرشہ ِ معدومِ وفا

تُو سفینے پہ سوالات لئے بیٹھا ہے

غرق ٹھہرے ہیں ترے ساحلِ امکان و بقا

بحرِ بے فیض کے آفاق پہ کیا تکتا ہے؟

منجمد خوف میں ساکت ہے کوئی بے چینی

اور کچھ ہے جو کسی وقت بھی ہو سکتا ہے

اَئے تہی دست خدا آج ترے ہاتھوں میں

ایک پندار کے لاشے کے سوا کچھ بھی نہیں

تیری متروک کرامات نئی دنیا میں

صرف اک کھیل تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]