فرش سے تا عرش سارے زمانے آپ کے
ساری دنیاؤں کے ہیں مخفی خزانے آپ کے
اک طرف صدیقِ اکبر اک طرف روح الامینؑ
ہم سفر کیا کیا بنائے ہیں خدا نے آپ کے
ذرہ ذرہ آپ کی سچی رسالت کا گواہ
ذرے ذرے کی زباں پر ہیں ترانے آپ کے
کروٹیں لیتے ہیں میرے ذہن میں بدر وحنین
یاد آتے ہیں بہت ساتھی پُرانے آپ کے
مرکزِ نور و نظر ہیں آپ کے غاور مزار
سب ٹھکانوں سے حسیں تر ہیں ٹھکانے آپ کے
حیرتیں گم ہوگئیں ہیں دانشیں ہیں لاجواب
رہ گئے اوصاف گِن گِن کر سیانے آپ کے
راستہ تکتی رہیں ان کی نگاہیں آپ کا
ہاتھ چومے ہیں رسولوں کی دُعا نے آپ کے
آپ کی یادوں میں گم رہتا ہے انجم رات دن
خواب آتے ہیں اسے اکثر سہانے آپ کے