فضائے طیبہ میں دن جو گزرے وہ آج پھر یاد آئے دل کو

حیات بخشی ہے اُس فضا میں، اُسی سے انساں لگائے دل کو

تجلیِ عہدِ شاہ طیبہ کی بات روشن کریں فضائیں

پھر اس کے بعد اور کیوں کسی عہد کا فسانہ سنائے دل کو

جو اُن فضاؤں سے کٹ گئے ہیں وہ نام تک اپنا کھو چکے ہیں

بھلا ہو نظَّارۂ مسلسل کا جس میں گُم کوئی پائے دل کو

حضور ! ہر سمت بو لہب کی روش سے بے نور ہیں فضائیں

حضور ! اب تو بہارِ جاوید کی فضا بھی لبھائے دل کو

اُنہی کی سیرت کے نقش ابھریں نگر نگر کی بہار بن کر

جمالِ آقا سے کاش اُمت کا بچہ بچہ بسائے دل کو

خوشا! زبان و قلم سے ان کا ہی ذکر دل میں اُتر رہا ہے

خوشا! کہ اُن کی محبتوں نے بنا لیا ہے سرائے دل کو

عزیزؔ احسن، حضور کے عہدکی فضاؤں کو یاد رکھو!

طریق بے ڈھب ہیں سب یہاں کے، یہاں کوئی کیا لگائے دل کو؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]