فیضِ مدحت سے مرے دل کی فضا کیف میں ہے

نعتِ سرور کی ہوئی ہے جو عطا کیف میں ہے

مجھ کو طیبہ کی زیارت ہو عطا اے مولا

ایک مدت سے یہی لب پہ دعا کیف میں ہے

ان کے قدموں کو خداوند نے برکت بخشی

’’چھو کے نعلینِ کرم غارِ حرا کیف میں ہے‘‘

آپ کے در سے گدا خالی نہ پھرتے دیکھا

بھیک جس کو بھی ملی ہے وہ سدا کیف میں ہے

جس گھڑی ان کی کرم بار گھٹا جھوم اٹھی

زاؔہدِ خستہ پہ تنزیلِ ثنا کیف میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]