اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف صحافی اور شاعر الطاف گوہر کا یومِ پیدائش ہے ۔

الطاف گوہر(پیدائش: 17 مارچ 1923ء – وفات: 14 نومبر 2000ء)
——
الطاف گوہر (انگریزی: Altaf Gauhar) پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف سول سرنٹ، اردو کے نامور شاعر اور صحافی تھے۔
الطاف گوہر 17 مارچ، 1923ء کو گوجرانوالہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام راجا الطاف حسین جنجوعہ تھا ۔ انہوں نے اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں ملازمت سے کیا۔ بعد ازاں سول سروسز کا امتحان پاس کر کے پاکستان کی سول بیورو کریسی کے ایک اہم اور فعال رکن بن گئے۔ ایوب خان کے دورِ حکومت میں وہ سیکریٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ایوب خان کے دور کا بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس انہی کے ذہنِ رسا کی اختراع بتایا جاتا ہے۔ 1972ء مین وہ روزنامہ ڈان کے مدیر مقرر ہوئے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ انہوں نے ‘تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن’ کے قیام میں بھی حصہ لیا اور اس ادارے کے جریدے ‘ساؤتھ’ کے مدیر رہے۔ ان کی تصانیف میں تحریرِ چند، ایوب خان:فوجی راج کے پہلے دس سال، لکھتے رہے جنوں کی حکایت اور ان کی خود نوشت سوانح عمری گوہر گذشت شامل ہیں۔ انہوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : گوہر ملسیانی کا یومِ پیدائش
——
تصانیف
——
گوہر گذشت
لکھتے رہے جنوں کی حکایت
ایوب خان:فوجی راج کے پہلے دس سال
تحریر چند
تفہیم القرآن (انگریزی ترجمہ)
——
وفات
——
الطاف گوہر 14 نومبر، 2000ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پا گئے۔ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
کتاب گوہر گذشت سے کچھ اقتباسات
——
ایوب خان کو ڈھاکہ میں سزا کے طور پر متعین کیا گیا تھا تو اُن دنوں وہ سگریٹ بہت پیتے تھے، ان کا بیٹ مین صبح سویرے چائے کے ساتھ سگرٹوں کا ایک ڈبہ بھی پیش کیا کرتا تھا، ایک روز اس نے چائے کی پیالی تو حاضر کی مگر یہ خبر بھی دی کہ آج سگریٹ نہیں ملا، ایوب بہت برہم ہوئے اور بیٹ مین کو دو چار گالیاں دے دیں۔ بیٹ مین ایک خود دار پٹھان تھا اور عمر میں بھی ایوب خان سے بہت بڑا تھا، اس نے کہا:جناب آپ میرے ا فسر ہیں مگر میں آپ کو بد کلامی کی اجازت نہیں دے سکتا، آپ پوری ڈویژن کو کمانڈ کر رہے ہیں اور آپ میں اتنا بھی صبر نہیں کہ آپ ایک دن سگریٹ نہ پینے کا دکھ برداشت کر سکیں۔ ایوب خان پر اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس دن سے انہوں نے سگریٹ پینا بند کر دیا۔ یہ واقعہ پڑھنے کے بعد ایک بات تو واضح ہے کہ آج کے زمینی خداؤں کی نسبت تب کے حکمرانوں میں ماتحتوں کی طرف سے حق گوئی پر، قوتِ برداشت زیادہ تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : الطاف فاطمہ کا یوم پیدائش
——
الطاف گوہر صاحب جسٹس منیر کے حوالے سے کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
مجھے معلوم ہوا کہ جسٹس منیر بیمار ہیں اور ان کے صحت یاب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ میں عیادت کے لیے ان کے گھر گیا۔ انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلا لیا اور چارپائی پر اپنے ساتھ بٹھایا، باتیں کرتے کرتے انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: الطاف گوہر تمہیں معلوم ہے کہ خدا کے وجود کے بارے میں میرے دل میں کئی سوال ہیں۔ موت کے بعد اگر میرا خدا سے سامنا ہوا تو میں کیا کروں گا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ تمام عمر توہینِ عدالت کے مقدمات سنتے رہے ہیں، ایسے مقدمات کی سماعت اس وقت ہوتی ہے جب مدعی اپنے جرم کا اعتراف کرے اور اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر ڈال دے۔ آپ بھی یہی کیجئے۔ پیش ہوتے ہی اپنے آپ جرم کا اعتراف کر لیجیے اور فیصلہ خدا وند کریم پر چھوڑیئے، جو ربّ الرّحیم ہے۔ منیر صاحب کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ چند روز بعد آپ وفات پا گئے۔
الطاف گوہرصاحب وزیرِ اعظم ملک فیروز خان نون کے ساتھ بطور ڈپٹی سیکرٹری فرائض سر انجام دیتے رہے، اس حوالے سے لکھتے ہیں :
ریل گاڑی میں سفر کے دوران بھی سرکاری کام نبٹانے کا عمل جاری رہتا تھا، مجھے وہ دن یاد ہے جب میں فائلوں کا پلندہ لیے ہوئے ملک صاحب کے سیلون پہنچ گیا، ملک صاحب حقہ لیے بیٹھے تھے اور صوفے پر لیڈی نون براجمان تھیں۔ میں ایک فائل کا خلاصہ بیان کر رہا تھا کہ لیڈی نون بولیں، ڈارلنگ تم کو محکمہ کی یہ تجویز ہر گز منظور نہیں کرنی چاہیے۔ لیڈی نون انگریزی میں وزیرِ اعظم کو سرکاری تجویز کے بارے میں اپنی رائے بتا رہی تھیں، بڑے جذبات کے ساتھ، اور ملک صاحب حقے کا سوٹا لگاتے ہوئے پنجابی میں مجھ سے کہہ رہے تھے، ”بکن دے سو“ (بکنے دو اسے ) ، میں نے وزیرِ اعظم کی طرف سے محکمے کی تجویز کو منظور کر دیا۔
اس زمانے میں مظفر علی قزلباش مغربی پاکستان کے چیف منسٹر تھے اور وہ ہر دس پندرہ دن بعد وزیرِ اعظم سے بعض معاملات میں احکامات حاصل کرنے کراچی تشریف لاتے۔ شام کے وقت وہ وزیرِ اعظم کے ساتھ مے نوشی کی محفل سجاتے اور ہر جام کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ گلے سے اتار دیتے، جب محفل شباب پر ہوتی تو مجھے طلب کیا جاتا، میں ایک نوٹ بک لے کر حاضر ہو جاتا۔ ملک صاحب فرماتے ”بجلی“ (ملک صاحب کے احکام پر فوری عمل کرنے کی وجہ سے انہوں نے الطاف گوہر کا نام بجلی رکھا ہوا تھا) لاہور کے کمشنر کو فوراً مرکزی سیکرٹریٹ میں بلا لو، وہ شخص تو ایک مصیبت بن گیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : گوہر شیخپوروی کا یومِ وفات
——
میں وزیرِاعظم کا حکم ابھی نوٹ بک میں لکھ نہیں چکتا تھا کہ دوسرا حکم دیا جاتا، او ہاں، ہمارے ہاں وہ ”گونگا“ جو وزارتِ داخلہ میں جوائنٹ سیکرٹری ہے اسے مغربی پاکستان بھجوا دے۔ اس پر ابھی فوری طور پر عمل ہونا چاہیے۔ میں تمام احکامات لکھ کر گھر چلا جاتا۔ دوسرے روز صبح کو جب میں وزیرِ اعظم کے ساتھ گھر سے دفتر کی طرف چلتا تو ملک صاحب فرماتے :بجلی تم ساتھ قدم ملا کر چلنے کی کوشش مت کرو اور ہاں کل شام جو احکام دیے تھے ان کا کیا ہوا؟ میں بڑے ادب سے عرض کرتا کہ جس نوٹ بک میں، میں نے وہ احکام لکھے تھے وہ گم ہو گئی ہے۔ ملک صاحب کہتے ”شاباش“ اور اس کے بعد نواب مظفر مجھے ہر روز فون پر یاد دلاتے کہ وزیرِ اعظم کے احکامات کی تعمیل نہیں ہوئی۔
——
منتخب کلام
——
ہو المُعِزُ
یا عزیز الجبار یا مرے ربِ کریم
یہ مرا جسم ترا ، جان تری ، فکر تری
قُل ہو اللہ احد ، قبلہ رُو کر دیا چہرہ کہ نہیں
قُل ہو اللہ احد ، تیرے سوا کس کو ثبات
قُل ہو اللہ احد ، تجھ سے جدا کیسی حیات
سانس امید میں ڈھلتی رہے جانے کب تک
جاں سلگتی رہے جلتی رہے جانے کب تک
——
یہ سحر کبھی تو ٹوٹے گا ، یہ خبط کبھی تو پُھوٹے گا
یہ سناٹا ، یہ خاموشی ، مجبورِ فغاں ہو جائے گی
——
ہم تو یونہی کبھی کبھی کہتے ہیں چھیڑ سے غزل
پیشہ وروں پہ کیا بنی ، اہلِ زباں کو کیا ہوا
——
ڈوب گئیں سب یادیں اُس کی رنگ گُھلے اور شام ہوئی
دل نے جو بھی بزم سجائی ، بکھری اور ناکام ہوئی
پل بھر آگے جھوم رہی تھی کرنوں کی پھلواری سی
اب یہ خاموشی ، تنہائی ، ہائے رے کیسی شام ہوئی
گرم و گداز وہ سانسیں اُس کی ، جسم مہکتا انگارہ
دھیمی دھیمی آنچ لبوں کی حاصلِ صبح و شام ہوئی
آنچل کی اک لہر ذرا سی حدِ اُفق تک جا پہنچی
اُبھری اور سحر بن بیٹھی ، ڈوب گئی تو شام ہوئی
کتنی طویل اور کیسی کٹھن تھی رات حیات کی کیسے کٹی
اُن آنکھوں میں بیت گئی کچھ اور کچھ صرفِ جام ہوئی
——
ابھی کلیوں میں چٹک ، گُل میں مہک باقی ہے
دل میں رونق ، ابھی آنکھوں میں چمک باقی ہے
اے ستم گر ترا بازو نہ ٹھہرنے پائے
جب تلک جسم میں جاں ، جاں میں کسک باقی ہے
اور ہر شے جو دمکتی تھی مٹا دی تو نے
دل سے اٹھتے ہوئے شعلوں کی لپک باقی ہے
اور کچھ دیر ترے دور کا چرچا ہو گا
اے فسوں گر ، کوئی ایذا ، کوئی زک باقی ہے
ظلم گھنگھور سہی ، وہ بڑے شہہ زور سہی
ابھی دیوانوں میں مستانہ لپک باقی ہے
پھر رہے ہیں سرِ بازار تماشا بن کر
بدگمانی تری ظالم ابھی تک باقی ہے
——
دیارِ یار گیا ، انتظارِ یار گیا
گیا وہ یار گیا ، مدتوں کا پیار گیا
وہ صبحِ عشق کی شبنم وہ شام کا شعلہ
وہ رشکِ سرو و سمن ، رونقِ بہار گیا
وہ جس کے حسن میں شوخی تھی موجِ دریا کی
مچلتی ناچتی لہروں کے ہم کنار گیا
وہ میرا دوست ، مرا آشنا مرا محبوب
وہ جس کے ساتھ محبت کا کاروبار گیا
وہ تند خو ، وہ مرا مہرباں ، ستم آرا
مرا قرار ، مرا دشمنِ قرار گیا
بس ایک بار وہ آیا اور اُس پہ یہ عالم
کہ جیسے آیا نہیں اور ہزار بار گیا
تڑپ رہی ہے فضا میں صدائے آوارہ
ابھی ابھی کوئی منصور سوئے دار گیا
اب اُن سے تذکرۂ ہجرِ یار کیا کیجے
نہ جن کا یار گیا ہے ، نہ جن کا پیار گیا
——
غم ترا ہم نے پا لیا ، قلب و جگر گئے تو کیا
دور مسرتیں لیے کوئی ہنسا کرے تو کیا
یہ تو نہ تھی طلب کی شرط لب پہ ضرور لا سکوں
گر وہ مرے کہے بغیر کچھ نہ سمجھ سکے تو کیا
کہتے ہیں حالِ دل کہو وہ ہیں بڑے وفا شناس
جب کوئی بات ہی نہ ہو اُن سے کوئی کہے تو کیا
دل کے شعور کے سوا حاصلِ غم نہیں کچھ اور
آپ نہ مل سکے تو کیا اور اگر ملے تو کیا
اب مرا جسم و جاں ہو تم ، اب مری داستاں ہو تم
ایک زمانہ ہو گیا تم سے ملے ہوئے تو کیا
——
شعری انتخاب از تحریریں چند ، مصنف : الطاف گوہر
شائع شدہ : 1988 ء ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ