قدم ڈگمگائے خیالات بھٹکے

تصور سے تیرے رہا دل جو ہٹ کے

بری بات جینا تھا موقف سے ہٹ کے

بُرا کیا ہوا جو سرِ دار لٹکے

مجھے منتقل کر کے شہرِ خموشاں

نہ پھر حال پوچھا کسی نے پلٹ کے

جسے وسعتِ دو جہاں بھی نہیں کچھ

مرے دل میں کیسا سمایا سمٹ کے

مرا کوئی مونس شبِ غم میں تھا کب

بجز دل میں روتا بھی کس سے لپٹ کے

مرا دل دکھا مت ستمگر مبادا

ترا بھی نظرؔ سے کوئی کام اٹکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]