قلب ہو جائے جو پتھر تو بشر پتھر کا

پھر تو ہر آدمی آتا ہے نظر پتھر کا

سنگباری ہوئی اتنی کہ شرر ہو گیا خون

کچھ تو ہونا ہی تھا آخر کو اثر پتھر کا

عشقِ بیناکی عنایت ہے یہ ترتیبِ صفات

آئنہ چہرہ، بدن پھول، جگر پتھر کا

کارِ شیشہ گری نازک سا ہے بالائے سطح

زیرِ شیشہ ہے وہی کام مگر پتھر کا

یا تو رستے کی رکاوٹ یا کسی سر کا نصیب

یعنی ٹھوکر سے سروں تک ہے سفر پتھر کا

پہلے گھڑتا ہے خدا، پھر وہی تیشے بھی سبھی

آزرِ عصر کے ہاتھوں میں ہنر پتھر کا

دشمنوں کو ہے کھلی دعوتِ شب خون ظہیرؔ

کانچ کی اپنی فصیلیں ہیں، نگر پتھر کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]