لبِ رسول کی دعا، حسین تھا حسین ہے

ہر ایک دل کی التجا، حسین تھا حسین ہے

حسین باکمال ہے، وہ فاطمہ کا لال ہے

سخی، متین ، باصفا ، حسین تھا حسین ہے

وہ پنجتن کی آن ہے، وہ سیدوں کی شان ہے

خدا کے دین کی بقا، حسین تھا حسین ہے

دل و نظر کا چین ہے، علی کا نورِ عین ہے

رئیسِ اہلِ کربلا، حسین تھا حسین ہے

شہادتوں کی رِیت ہے، صداقتوں کی جیت ہے

محبتوں کی انتہا ، حسین تھا حسین ہے

چلی ہے جس کی گفتگو، ہوئی ہے اس کی جستجو

مشامِ جان میں بسا، حسین تھا حسین ہے

دِلوں پہ جس کا راج ہے، ہمارے سر کا تاج ہے

شبابِ خلد کی صدا، حسین تھا حسین ہے

وہ روشنی ہے نور ہے، نگاہ کا سرُور ہے

نظر نظر کا مدعا، حسین تھا حسین ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]