لوگ مصروفِ خدائی ہیں خدا کے گھر میں

بندہ توبہ کرے مسجد سے اب آ کے گھر میں

پُل بنانے میں تھے مصروف، یہ معلوم نہ تھا

دریا آ جائے گا دیواریں گرا کے گھر میں

اتنا گھبرائے گھٹن سے کہ ہم ایسے محتاط

آ گئے لے کے دیا اپنا ہوا کے گھر میں

کھوٹا سکہ تو نہیں ہے یہ محبت لوگو

آزماؤ اِسے، رکھو نہ چھپا کے گھر میں

میں نکلتا ہوں غم دنیا پہن کر ہر صبح

نوچ دیتا ہوں اسے شام کو جا کے گھر میں

آپ کے در سے کہیں اُٹھ کے نہ جاؤں مولا

کیجئے مجھ سے سلوک ایسا بُلا کے گھر میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]