میں نے جب شعر ترے درد میں ڈھالے آخر

پڑ گئے شعر کو بھی جان کے لالے آخر

شدتِ کرب سے کھنچتی ہیں رگیں ٹوٹتی ہیں

اس قدر ضبط مجھے مار نہ ڈالے آخر

مشورہ ہے کہ مرے درد کا درماں سوچو

اس سے پہلے کہ مجھے موت منالے آخر

خود کشی عین مناسب ہے مرے چارہ گرو

موت آئے تو کہاں تک کوئی ٹالے آخر

میں تجھے ڈھانپ کے ٹھہرا رہا میدان میں اور

میرے حلقوم تلک آ گئے بھالے آخر

کوئی توجیہہ نہیں تیری جفا کی ملتی

پڑ گئے سوچ کے پاؤں میں بھی چھالے آخر

قید کہتا ہے پناہوں کو مری جان تو سن

کر دیا میں نے تجھے تیرے حوالے آخر

تو کہ آزاد ہے اب شہرِ ہوس میں ناصر

مر گئے آج ترے چاہنے والے آخر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]