مالکِ بحر و بر بھی تو، خالقِ خشک و تر بھی تو

تیرا جمال ہی عیاں، قریہ بہ قریہ، کو بہ کو

شام و سحر ہے فکر کو صرف تری ہی جستجو

تیرے فراق ہی میں ہے ارض و سما کی ہا و ہو

تیرے کرم پہ منحصر، فکر و خیال کی نمو

کیسے ہو تیری معرفت، نفس ہے خود مرا عدو

جبکہ ترا ظہور ہے نکتہ بہ نکتہ، مو بہ مو

پھر مرے رب! نہاں ہے کیوں خود ہی مری نظر سے تو؟

مالکِ نفس و روح و جاں، تیرا مقام صرف ھو!

تیرے جمال کے لیے ارض و سما کی ہا و ہو

تیرے خیال سے حسیں میرا نظامِ آرزو

روح میں بھی اُتار دے صرف ترے ہی رنگ و بو

چشمۂ آشنائی سے میں بھی کروں کبھی وضو

محفلِ قرب سے ملے کاش مجھے کبھی سبو

دشتِ تَحَیُّرِ عزیزؔ پھیلا ہوا ہے چار سو

’’میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میر ے گہر کی آبرو

میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہرِ شاہوار کر٭‘‘

٭اقبالؒ ; جمعرات: ۲۱؍جمادی الثانی ۱۴۳۴ھ… مطابق: ۲؍مئی ۲۰۱۳ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]