محبتوں کے نئے زاویے دکھا رہے تھے

کہ سنگِ راہ کو ہم آئنہ بنا رہے تھے

میں بدنصیب نے آخر یہ دن بھی دیکھنا تھا

میں مر رہا تھا مرے دوست مسکرا رہے تھے

یہ معجزہ بھی تو اندھوں کے دیس میں ہوا تھا

جو دیکھ سکتے نہیں تھے، ہمیں دکھا رہے تھے

ہمارے پاس مسرت کی کوئی بات نہ تھی

کسی کے دکھ تھے یہاں اور ہم اٹھا رہے تھے

میں لکھنے بیٹھا تو میری غزل میں ڈھل گئے ہیں

وہ سارے لفظ جو پہلے مری دعا رہے تھے

میں جاگتا تھا تو کوئی ادھر نہ آتا تھا

میں سو گیا تو مجھے سب سلانے آ رہے تھے

عجیب دکھ تھا کہ میرا کلیجہ پھٹ رہا تھا

وہ لو گ میری کہانی مجھے سنا رہے تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]