محبتوں کے نئے زاویے دکھا رہے تھے
کہ سنگِ راہ کو ہم آئنہ بنا رہے تھے
میں بدنصیب نے آخر یہ دن بھی دیکھنا تھا
میں مر رہا تھا مرے دوست مسکرا رہے تھے
یہ معجزہ بھی تو اندھوں کے دیس میں ہوا تھا
جو دیکھ سکتے نہیں تھے، ہمیں دکھا رہے تھے
ہمارے پاس مسرت کی کوئی بات نہ تھی
کسی کے دکھ تھے یہاں اور ہم اٹھا رہے تھے
میں لکھنے بیٹھا تو میری غزل میں ڈھل گئے ہیں
وہ سارے لفظ جو پہلے مری دعا رہے تھے
میں جاگتا تھا تو کوئی ادھر نہ آتا تھا
میں سو گیا تو مجھے سب سلانے آ رہے تھے
عجیب دکھ تھا کہ میرا کلیجہ پھٹ رہا تھا
وہ لو گ میری کہانی مجھے سنا رہے تھے