مر گیا میں بھری جوانی میں
عشق تھا ہی نہیں کہانی میں
موج در موج رنگ رقصاں ہیں
عکس ٹھہرا ہوا ہے پانی میں
اب یقین و گمان کچھ بھی نہیں
سب گنوا بیٹھا بدگمانی میں
خود سے اب منہ چھپائے پھرتا ہوں
راز سب کہہ دیے روانی میں
اپنے خوابوں پہ خاک ڈالی اور
خاک لائے ہیں ہم نشانی میں
تیرا سورج غروب ہو گیا ہے
اب اندھیرے ہیں راجدھانی میں