مدینہ دیکھتے ہیں اورکہاں کھڑے ہوئے ہیں
مدینہ دیکھتے ہیں اور کہاں کھڑے ہوئے ہیں
ہماری آنکھ کو کیا کیا ہنر ملے ہوئے ہیں
بصد ادب ہے یہ عرضِ جہانِ دیدہ و دل
حضور آئیے سب راستے سجے ہوئے ہیں
ہمارا کچھ بھی نہیں قاسمِ ضیا کی قسم
لویں جلائی گئی ہیں تو ہم دئیے، ہوئے ہیں
وجودِ خواب لپٹنے لگا ہے رنگوں میں
ہوائے طیبہ نے منظر نئے بُنے ہوئے ہیں
ہمیں سنورنا ہے ہمدوشِ آسماں ہو کر
نگاہ کیجئے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں
حضور آپ کی رہ ہے رہِ نشاط و نجات
ہمِیں بُرے ہیں مصائب میں جو گِھرے ہوئے ہیں
کرم میں ان کے تیقن کا جو شجر ہے میاں
اسی کی شاخ پہ پھل پھول بھی لگے ہوئے ہیں
ہرا درخت ہے جنت کا ، جیسے گنبد بھی
تبھی تو اس کے پرندے بڑے سجے ہوئے ہیں