مدینہ طیبہ کا حسن، حدِ بیاں سے باہر

ہے رشکِ حسنِ جناں بظاہر جناں سے باہر

میں جسم لے کر گیا تھا بس ایک بار طیبہ

پہ دل وہیں رہ گیا نہ آیا وہاں سے باہر

فقط اُنھی کو شرف ملا ہے وصالِ حق کا

وہی گئے ہیں حدِ مقامِ مکاں سے باہر

سوال کرنے سے قبل بخشش عطا ہوئی ہے

عطاے شہرِ کرم ہے میرے گماں سے باہر

نبی کے منبر سے اُن کے گھر تک ہے باغِ جنت

خدا نے طیبہ میں اُس کو رکھا جناں سے باہر

ہر ایک لمحہ ہے اُن تریسٹھ برس کا صدقہ

کوئی زمانہ نہیں ہے ان کے زماں سے باہر

میں جاں بہ لب ہوں کریم آکر پڑھائیں کلمہ

کہ روح نکلے سکون سے خاکداں سے باہر

بہ چشمِ نم اپنی نعت لے کر بہت ادب سے

کھڑا ہوں آقا ترے کریم آستاں سے باہر

فقیرِ عشقِ نبی ہوں منظر دعا ہے میری

بہ روزِ محشر نہ ہوں نبی کی اماں سے باہر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]