مردے کو بھی مزار میں لینے نہ دے گی چین

صد شکر بجھ گئی تری تلوار کی ہوس

قاتل یہی تھی تیرے گنہ گار کی ہوس

مردے کو بھی مزار میں لینے نہ دے گی چین

تا حشر تیرے سایۂ دیوار کی ہوس

سو بار آئے غش ارنی ہی کہوں گا میں

موسیٰ نہیں کہ پھر ہو نہ دیدار کی ہوس

رضواں کہاں یہ خلد و ارم اور میں کہاں

آئے تھے لے کے کوچۂ دل دار کی ہوس

صیاد جب قفس سے نکالا تھا بہر ذبح

پوچھی تو ہوتی مرغ گرفتار کی ہوس

یوسف کو تیری چاہ کے سودے کی آرزو

عیسیٰ کو تیرے عشق کے آزار کی ہوس

دست ہوائے گل میں گریبان ہے مرا

دامن جنوں میں کھینچتی ہے خار کی ہوس

جب ہو کسی کا رشتۂ الفت گلے کا طوق

دیوانہ پن ہے سبحہ و زنار کی ہوس

مانع ہے ضبط چرخ پھنکے کیونکر اے جلالؔ

کس طرح نکلے آہ شرربار کی ہوس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]