مرے جہان کی وسعت تری گلی تک ہے

صدائے درد و الم بس مرے نبی تک ہے

بڑے وثوق سے تاریخ نے یہ لکّھا ہے

کہ عظمتوں کا سفر اُن کی پیروی تک ہے

اکیلے نکلے تھے غارِ حرا سے خالی ہاتھ

جہانِ کفر کو دھڑکا مگر ابھی تک ہے

نبی کے قرب کی منزل ابد ابد کی خوشی

دکھوں کا سلسلہ دُنیا کی زندگی تک ہے

درِ حضور پہ علم و شعور گر نہ جھُکے

تو دسترس تری کیسے پھر آگہی تک ہے

بچانا خود کو تکبر کی سب اداؤں سے

یہ اُن کی نظرِ کرم تیری عاجزی تک ہے

کوئی نہ مفلسِ دنیا ہمیں کہے لوگو

پہنچ ہماری بھی سب سے بڑے سخی تک ہے

شکیلؔ نعتِ نبی ہو تو اس حضوری سے

زمانہ یہ نہ کہے بات شاعری تک ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]