مرے قریۂ شبِ تار میں کوئی بھیج لمحۂ روشنی

ترے دستِ جود و کرم میں ہے مرے حرفِ شوق کی دلبری

مَیں تری گلی کے جوار میں یونہی رُک گیا ہُوں دمِ وداع

اسے حکم دے مرے مقتضا، میں چلوں تو ساتھ چلے گلی

سبھی قافلے ہیں رواں دواں سوئے کوئے مہبطِ قُدسیاں

ہیں اُمیدِ اذن پہ سر بہ خم مرے خواب اور مری بے بسی

تری بارگاہِ جمال میں کروں نذرِ شوق تو کیا کروں

مری عرض ہے لبِ بستہ دم، مری نعت ہے مری خامشی

ترے آستاں سے ہیں منسلک مری نسبتیں، مری حیرتیں

مری تازگی، مری نغمگی، مری بندگی، مری زندگی

یہ تو بس مدارِ سخن میں ہیں،انہیں تابِ حرف کہاں بھلا

مرے نطق و خامۂ شوق کو کوئی دے سلیقۂ چاکری

یہ گرفتہ دل، یہ شکستہ پا، یہ حروفِ عجز کا ملتجی

ترے پاس لایا ہے لغزشیں، تُو نواز نعت کی نوکری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]