مصطفٰی کے بنا بسر نہ ہوئی

رات گزری مگر سحر نہ ہوئی

یہ صدا دل ، جگر ، نظر میں رہی

’’ وہ یہیں تھے مگر خبر نہ ہوئی ‘‘

میں خیالوں میں ڈھونڈتا ہوں جنہیں

ان کی صورت ہی جلوہ گر نہ ہوئی

دیکھ کر موسیٰ گر پڑے تھے جہاں

چشم نادر اِدھر اُدھر نہ ہوئی

ان کی سیرت پہ جو عمل نہ ہوا

زندگی میری کارگر نہ ہوئی

ان کا در تو کھلا ہوا ہے مگر

مجھ سے مدحت ہی پر اثر نہ ہو ئی

در پہ بیٹھا ہوں میں جھکا کے نظر

پھر یہ ہستی بھی دربدر نہ ہوئی

میں بھی قائم بنا غلامِ نبی

چاکری اور عمر بھر نہ ہوئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]