موند کر آنکھ اُن آنکھوں کی عبادت کی جائے

شام دنیا کے جھمیلوں میں نہ غارت کی جائے

تیرے پَیروں سے ہی اُٹھتا نہیں ماتھا میرا

کس کو فُرصت کہ ترے ہاتھ پہ بیعت کی جائے

!تیری بات اور ہے، اے مجھ کو ستانے والے

تُو زمانہ تو نہیں ہے کہ شکایت کی جائے

مصحفِ عشق میں آیا ہے کئی بار یہ حکم

درد کا شکر کیا جائے ، دوا مت کی جائے

چھاگلیں دو ہیں فقط ہجر کے صحرا کے لیے

سو یہ لازم ہے کہ اشکوں میں کفایت کی جائے

صبر مشکل ہے مگر اتنا سمجھ لے فارس

کچھ نہیں ملتا اگر عشق میں عجلت کی جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]