مڑ کے تکتے نہیں پتوار کو لوگ

ایسے جاتے ہیں ندی پار کو لوگ

میں تو منزل کی طرف دیکھتا ہوں

دیکھتے ہیں مری رفتار کو لوگ

سائے کا شکر ادا کرنا تھا

سجدہ کرتے رہے دیوار کو لوگ

آئنہ میرے مقابل لائے

خوب سمجھے مرے معیار کو لوگ

نام لکھتے ہیں کسی کا لیکن

دکھ بتاتے نہیں اشجار کو لوگ

صبر کی داد نہیں دیتا کوئی

حوصلہ دیتے ہیں بیمار کو لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]