میانِ حشر کچھ ایسے مری تقدیر چمکے

مرے ماتھے پہ ’’عبدِشاہ‘​‘​ کی تحریر چمکے

پسِ احساس مہکے خواب تیری نکہتوں کا

نظر کے سامنے پھر خواب کی تعبیر چمکے

کچھ ایسے مستقل ہو نعت کا عنوانِ نسبت

مری نسلوں میں بھی اس خیر کی تاثیر چمکے

ترا اسمِ کرم نطق و بیاں کی روشنی ہے

مرے آقا! تری مدحت سے بے تدبیر چمکے

ڈرا دیتا ہے ویسے تو خیالِ یومِ پُرسش

سنبھل جاتا ہے دل جب پیکرِ تبشیر چمکے

مدینہ جیسے خواہش کا سدا نقشِ مکمل

سفر سے پیشتر آنکھوں میں وہ تصویر چمکے

جمالِ نقشِ نعلینِ کرم ہے متنِ تابش

بیانِ زُلفِ عالم تاب سے تفسیر چمکے

ترے شہرِ ضیا پرور کی دہلیزِ عطا سے

کفِ شب پر نئے امکان کی تفجیر چمکے

بہ فیضِ نعتِ رحمت زیست تسکینِ مکمل

درودِ پاک سے تقدیرِ ظلمت گیر چمکے

وہیں پر ہو رہے ہیں عزتوں کے اسم اونچے

درِ خیر الوریٰ پر قسمتِ توقیر چمکے

ثنا گوئی نہیں مقصودؔ کچھ کارِ ریاضت

کرم سے ہی ترا یہ خامۂ تقصیر چمکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]