میں دیکھتا ہوں وہ جتنا دکھائی دیتا ہے

پھر اس کے بعد برابر سنائی دیتا ہے

وہ سب سے پہلے بلاتا ہے بزم میں مجھ کو

کسی بھی درد کو جب رونمائی دیتا ہے

وہ دیکھتا نہیں لیکن وہ دیکھ لیتا ہے

وہ بولتا نہیں لیکن سنائی دیتا ہے

اُس خبر ہے شدت میں کون تڑپے گا

وہ باوفا ہے مگر بے وفائی دیتا ہے

وہ اپنی مرضی سے کرتا ہے وقت کی تقسیم

گھڑی کسی کو، کسی کو کلائی دیتا ہے

تمام شہر سے رکھاہے اس نے ربط زبیر

کسی کو وصل ، کسی کو جدائی دیتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]