ناول نگار و افسانہ نگار الیاس سیتا پوری کا یوم وفات
آج معروف ناول نگار و افسانہ نگار الیاس سیتا پوری کا یوم وفات ہے

الیاس سیتا پوری (اصل نام: محمد الیاس خان) 30/اکتوبر 1934 کو لکھنؤ (اترپردیش) کے ضلع سیتاپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق فارسی، پشتو اور داری بولنے والے پٹھان یوسف زئی قبیلے سے تھا جو کابل (افغانستان) سے ہجرت کر کے شاہجہاں پور (اترپردیش) میں آباد ہوئے تھے۔ الیاس سیتاپوری نے اپنی ابتدائی تعلیم سیتاپور میں حاصل کی اور ابتدائی عمر ہی سے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ ان کی پہلی تاریخی کہانی جس نے قبولیت عامہ حاصل کی وہ "خانِ اعظم کا تحفہ” تھی جو ماہنامہ "سب رنگ” ڈائجسٹ کے 1971 کے کسی شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
حرم سرا، راگ کا بدن، اندر کا آدمی، چاند کا خدا، بالاخانے کی دلہن، پارسائی کا خمار، آوارہ گرد بادشاہ ۔۔۔ ان کی مقبول ترین کہانیاں باور کی جاتی ہیں جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں شمع بکڈپو (نئی دہلی) نے شائع کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : مایہ ناز افسانہ نگار اور ناول نگار اے حمید کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ الیاس سیتا پوری نے اپنی اہلیہ ضیا تسنیم بلگرامی کے نام سے مذہبی شخصیات اور پیشواؤں کے واقعات بھی تحریر کیے چاہے وہ انبیائے کرام کے حالات زندگی ہوں یا صحابہ کرام کی تبلیغ، مجدّدین کی جدوجہد یا اولیائے کرام اور مجاہدین کے کارنامے۔
یکم اکتوبر 2003 کو الیاس سیتاپوری کراچی (پاکستان) میں انتقال کر گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور اردو بلاگر ابوشامل کے بلاگ کی ایک تحریر میں مہمان بلاگر زبیر انجم نے آج سے کوئی دس سال قبل لکھا تھا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک الیاس سیتا پوری کی تاریخ نگاری کا تعلق ہے تو ان کا انداز ٹیکسٹ بک یا مستند انداز تاریخ نگاری سے یکسر مختلف ہے۔ تاریخ نگاری کا وہ رائج انداز جو مستند سمجھے جانے والے مسلم مورخین یا مستشرقین نے اختیار کیا اس میں لکھنے والوں کا سب سے زیادہ زور واقعات کی صحت ثابت کرنے پر محسوس ہوتا ہے جو قاری کو بہت جلد بور کر کے کتاب کو دوبارہ طاقِ نسیاں میں رکھ ڈالنے پر مجبور کردیتا ہے۔میرا خیال ہے الیاس سیتاپوری نے کبھی واقعات کی صحت کو ثابت کرنے پر زور نہیں دیا بلکہ اس عہد کے مرکزی کرداروں کے بجائے ایک معمولی شخصیت سے اس عہد کو سمجھانے کی کوشش کی ہے جس سے قاری خود کو اسی دور میں چلتا پھرتا اور واقعات کو اپنے سامنے رونما ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے اور اس اپروچ سے کام ہی کو میں الیاس سیتا پوری کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتا ہوں۔ اگر آپ تاریخ کو پڑھنے کے بجائے اس عہد میں لوٹنا چاہتے ہیں تو اپنے ذہن میں پہلے سے موجود تاریخ نگاری کے سانچوں کو توڑ کو الیاس سیتاپوری کی جانب آیئے یقین جانئے بہت لطف آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشیر صدیقی اس کتاب "کشمیر کی کلی” کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیاس سیتاپوری غالباً ایشیا کا واحد تاریخی افسانہ نگار ہے جس نے تاریخ کا مطالعہ جبلت اور نفسیات کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : معروف ناول نگار اور افسانہ نگار جیلانی بانو کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں لکھتے وقت وہ قطعی غیر جانبدار نظر آتا ہے۔ اس کی کہانیوں میں تاریخ کے تمام پہلو نہایت مہارت اور چابکدستی سے سموئے ہوئے ملیں گے۔
علم و ادب، سیاست، اخلاقیات، معاشیات اور ثقافت۔۔۔ ان کی روح الیاس سیتاپوری کی کہانیوں میں اس طرح پیوست اور مربوط ملے گی کہ قاری کو ان کی سچائی پر شبہ تک نہ ہوگا۔ واقعات اور انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ، اس مشاہدے کو خوبصورت اسلوبِ نگارش اور افسانوی تیکنیک سے کاغذ پر منتقل کر دینے کا عمل اس غضب کا ہوتا ہے کہ قاری خود کو اس کی کہانیوں کے ماحول میں پہنچا ہوا پاتا ہے اور زمانی اور مکانی فصل کے باوجود ان کرداروں میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتا اور وہی احساسات اور جذبات کو محسوس کرنے لگتا ہے جو کہانیوں کے کرداروں میں پائے جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ الیاس سیتاپوری کی ہر کہانی انسانوں کی کہانی ہوتی ہے جو ہر دور کے انسانوں کے لیے ہوتی ہے۔
الیاس سیتاپوری کی کہانیوں میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ملتی ہیں ان میں ایک یہ خوبی بھی ہے کہ جو کہانی جس ملک اور جس زمانے سے متعلق ہوتی ہے اس کا لب و لہجہ، کرداروں کا اندازِ گفتگو، تشبیہہ اور استعارے، محاورات اور امثال اس ملک اور اس زمانے سے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات کہانی میں ذرا سا ٹچ یا ذرا سا اشارہ اتنا ضروری اور وزنی ہوتا ہے کہ اس کی مدد سے قاری اسی عہد میں پہنچ جاتا ہے۔
مثل مشہور ہے "خطائے بزرگاں گرفتن خطاست” جب تک اس پر عمل کیا گیا، نااہلوں اور نامعقولوں کی شان میں قصائد لکھے جاتے رہے اور ممدوحوں کو ان ساری خوبیوں کا پیکر قرار دیا جاتا رہا جن کے معانی و مطالب تک سے وہ ناآشنا رہے ہوں گے۔ آج جب الیاس سیتاپوری نے تاریخ کی اس تلخ حقیقت کو اپنی کہانیوں کی بنیاد بنایا تو لوگ چونک پڑے۔ اس کی صاف گوئی اور جرات کو بعض نے ناپسند کیا اور ناراض ہو گئے۔ لیکن بہتوں نے اسے بےحد پسند کیا اور بہت زیادہ سراہا۔ شاید اس لیے کہ باتیں دل سے کہی گئی تھیں اس لیے دلوں میں اترتی چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں یہ بات پورے یقین اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ الیاس سیتاپوری کی شخصیت اور اس کے فن نے اسے پچھلوں اور ہم عصروں کے مقابلے میں نہایت قدآور اور ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی معروف کتابوں میں یہ ہیں
عجائب خانہ عشق،
کشمیر کی کلی،
ابلیس،
ثمینہ،
شکار
وادی سندھ کے اسرار
بالا خانے کی دلہن
راگ کا دن
اندر کا آدمی
شہزادی کا نیلام
آشنا نا آشنا
رزم بزم
چاند کا خدا
داستان حور
پارسائی کا خمار
حرم سرا کا محبوب
دیوی کے پرستار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : تحقیق کس کو آپ سا صادق امیں کہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔