نشاں اسی کے ہیں سب اور بے نشاں وہ ہے

چراغ اور اندھیرے کے درمیاں وہ ہے

نمود لالہ و گل میں وہی ہے چہرہ نما

شجر شجر پہ لکھا حرفِ داستاں وہ ہے

جبین شمس و قمر اس کے نور سے تاباں

سنہری دھوپ ہے وہ حسن کہکشاں وہ ہے

اسی کی ذات کے ممنون خدوخال حیات

کہ اور کون ہے صورت گر جہاں وہ ہے

ہر اک اُفق پہ اسی کا دوام روشن ہے

جو شے فانی ہے بس ایک جاوداں وہ ہے

کیا ہے جرم سے پہلے ہی اہتمام کرم

چراغ رحمت آقا میں ضو فشاں وہ ہے

اسی کی یاد لہو سے کلام کرتی ہے

ہے جس کے ذکر سے آباد شہر جاں وہ ہے

سکوت نیم شبی میں پکارتا ہوں اسے

کہ میں ہوں درد کی دستک در اماں وہ ہے

زبان اشک سے مانگو دعائیں بخشش کی

بڑا رحیم ، نہایت ہی مہرباں وہ ہے

اسی کی مدح میں لو دے رہے ہیں لفظ صبیحؔ

سخن کا نور ہے وہ لذّت بیاں وہ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]