نظریں چُرائیے، نہ ندامت اٹھائیے

جتنے بچے ہیں سنگ ملامت، اٹھائیے

مصلوب کیجئے ہمیں نا کردہ جرم پر

معصوم پھر بنا کے سلامت اٹھائیے

یہ ٹیڑھے ترچھے وار ہیں توہین عاشقی

تیغ ستم کو برسر قامت اٹھائیے

اِس تہمتِ جفا سے بھی آگے ہیں مرحلے

اتنی سی بات پر نہ قیامت اٹھائیے

تکلیف دیجئے نہ کسی غمگسار کو

احسانِ چارہ گر بھی ذرا مت اٹھائیے

مرتا ہے شہر مہر و محبت کے قحط سے

خاصان خلق دست کرامت اٹھائیے

نادم کھڑے ہیں سارے گنہگار منتظر

بڑھ کر ظہیرؔ بار امامت اٹھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]