نہ تیرنے کے ہنر سے واقف نہ ہم ہیں پختہ سفینے والے

تری شفاعت کے آسرے پر رواں دواں ہیں مدینے والے

ستم تو یہ ہے مرے پیمبر فقط یہ حلیے کی ورزشیں ہیں

وگرنہ ایسے دکھائ دیتے تری اطاعت میں جینے والے

درود گوئ کا سلسلہ تو فقط بہانہ بنا ہوا ہے

اکٹھے ہوتے ہیں روز جامِ رخِ منور کو پینے والے

جوسوچتے تھے دیا جلائے بنا خریدیں گے روشنی کو

مجھے بتاؤ مرے عزیزو کہاں گئے وہ خزینے والے

نبی سے سیکھا ہوا ہے ہم نے عداوتوں کو شکست دینا

محبتوں کے سخن ہمارے نہ بغض والے نہ کینے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]