نگاہوں میں مدینہ آ گیا ہے
مصائب کو پسینا آ گیا ہے
اندھیروں میں وہ اِک شمعِ فروزاں
ضیاؤں میں نگینہ آ گیا ہے
بھنور میں نام جب اُن کا پُکارا
کنارے پر سفینا آ گیا ہے
بفیضانِ پیمبر عاشقوں کو
محبت کا قرینا آ گیا ہے
جو ڈُوبے بحرِ عشقِ مصطفی میں
اُنھیں مر مر کے جینا آ گیا ہے
میں مالا مال ہوں عشقِ نبی سے
مرے حصے خزینہ آ گیا ہے
سگِ در کی جگہ لینے ادب سے
ظفرؔ ادنیٰ کمینا آ گیا ہے