وعدہ دیا تھا اُس نے، نشانی تو تھی نہیں

یادوں پہ ہم نے فلم بنانی تو تھی نہیں

بس دیکھنا تھا کوئی ہتھیلی پہ ایک نام

ہم نے تمھاری شام چرانی تو تھی نہیں

کردار کی اذیتیں کچھ پوچھئے نہ بس

بے ربط تھیں لکیریں کہانی تو تھی نہیں

ہر ایک شخص کھوجنے میں تھا لگا ہوا

میں نے کسی کو بات بتانی تو تھی نہیں

کچھ وقت بس گزارنا تھا گھر کے صحن میں

دیوار جو گرائی اٹھانی تو تھی نہیں

اس سلسلے کو روکنا بھی اب یہیں پہ تھا

یہ بات ہم نے آگے چلانی تو تھی نہیں

مجنوں کے نام ایک علاقہ کیا رقم

صحرا کی خاک شہر میں لانی تو تھی نہیں

شہرت کسی کے غم کی ہوئی ہے عطا زبیر

عزت یہ شاعری سے کمانی تو تھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]