پائندہ تیرا نور اے شمع حرم رہے

روشن ترا جمال اے ماہ عجم رہے

تو نے عطا کیے ہیں کنیزوں کو تخت و تاج

تیرے غلام صاحب جاہ و حشم رہے

جب تک جبین دل ترے دل پر جھکی رہی

اپنے حضور قیصر و فغفور خم رہے

کرتے رہے حکایت مہر و وفا رقم

جب تک ہمارے ہاتھ میں لوح و قلم رہے

ہم نے جہاں کو خیر و سعادت سے بھر دیا

جس جار رہے ہیں صورت ابر کرم رہے

مغرب میں اپنے نام کا سکہ رواں رہا

مشرق میں سر بلند ہمارے علم رہے

ہم سے بساط علم کو آرائشیں ملیں

ہم سے جہاں میں اہل ہنر محترم رہے

کیا کیا نہ فیض شہر نبیؐ بانٹتا رہا

کیا کیا رواں نہ قافلے سوئے حرم رہے

پھر کیوں زمانہ چال قیامت کی چل گیا

پھر کیوں نہ روز و شب وہ ہمارے بہم رہے

دے گا تیرا ضمیر ہی اس بات کا جواب

کچھ دیر شرم سے اگر سر نذر خم رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]